تاریخی بیانات

سیاحوں اور سفارتکاروں سی رپورٹیں اوراسن کے خطوط ثابت کرتے ہیں کہ عمان نے صدیوں تک اپنے پرامن فلسفے پر عمل کیاہے۔.

انگلش پادری جون اوونگٹن کی تحریر میں سے اقتباس کا حوالہ : کنگ جیمز دوم کے سن ۱۶۳۳ عیسوی میں مسقط کے دورے ٕٕٕپر ٕ

"یہ عربوں بہت شائستہ ہیں اور تمام اجنبیوں کےساتھانتہائی مہذبانہ سلوک کرتے ہیں؛ وہ کسی بھی طرح سے نہ تو تشدد یا توہین کرتے ہیں؛ اور 'حالانکہ وہ اپنے اصولوں کی بہت سختی سے پابندی کرتے ہیں، اوروہ ان کے اپنے مذہب کے مداح ہیں ، پھربھی وہ کبھی اس کو کسی پر مسلط نہیں کرتے؛ اور نہ ہی ان کی اخلاقیات اتنے شدید جوش سے ابھرتے ہیں کہ نہ ہی وہ ان کو انسانیت سےاور احترام کرنے سے منحرف کر دیں۔ یہ لوگ قدرتی طورپر معتدل اورمنصف ہیں اور اور ان عمدہ خصوصیات سےفیضیافتہ ہیںگو کہ یونانی فلسفیوں اور رومن کے اخلاقیات کے معتقدوں نےکوشش کی کہ وہ اپنی رعیا کوجوش جذبہ دلا سکیں تا ہم وہ اس مقصدکو حاصل کرنے میںناکام ہوئے ۔

امریکی تاجر اور سفارت کار، ایڈمنڈ رابرٹس،۱۸۳۳میں سید سعیدسے ملاقات کی اور  اوراس نےعمان کے حاکم کو خبر دی"سلطان کی مملکتوںکی حدود کے اندر تمام مذاہب، نہ محض برداشت کئے جاتے ہیںبلکہ   عزت ماآب کی طرف سے انکی حفاظت کی جاتی ہے۔؛ اور ان کےراستےمیںکسی بھی قسم کی کوئی روکاو ٹہ ہے  کہ عیسائیوں کو ، یہودیوںکو یا   مشرکو     ں کے  مخصوص عقائد کی تبلیغ کر سکیں  یا   مندروںکی تعمیر کریں۔    

۱۸۲۴ ایک بریٹش سیاح کپٹان جورج کیپل میں جب وہ بھارت سے انگلینڈ واپس آ رھا تھا تو وہ مسقط گیااوراس نے عمان کےمسلمانوںکومندرجہ ذیل طرح سے موسوم کیاٌوہ نہ اولیاءکی عبادت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی خانقایں اور نہ ہی انکے درویش ہیں۔ . وہ انصاف کے لئے ایک عظیم احترام رکھتے ہیں؛ اور دیگر مذاہب کےلئے ایک عالمگیر رواداری رکھتے ہیں ۔”.

 ایک جرمںسیاح کارٹسن نیبور نے۳ جنوری ۱۷۶۵کومسقط  کا دورہ کیا۔ اس نے رپورٹ بھیجی کہ بھارت سے بانیابڑی تعداد میں تجارتی شہروں میںآباد ہوئے ہیں۔ موخا میں وہ بہت  سی نفس کشی کا شکار ہوئے۔لیکن مسقط میں بردبار فرقہ بائیاکے حلقہ میں   انہیں اجازت دی گئی کہ وہ قوانون پر عمل کریں اور وہ بغیر کسی روکاوٹ کے وہ ا پنے مذہب  کی عبادت کریں ۔ “